پاکستان کے کسی پسماندہ علاقہ کے ایک متوسط ظبقے میں ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ 5 سال کی عمر میں اس کو سکول داخل کروا دیا جاتا ہے، وہ سرکاری سکول جہاں اس کو چٹھی جماعت میں انگلش سکھائی جاتی ہے۔ وہ 12 سال تک وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میٹرک مکمل کرتا ہے۔ ان 12 سالوں میں اس کی شخصیت میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوتی، اس کی ذات میں وہ اعتماد ہر گز نہیں ہوتا جو کہ 12 سال کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک انسان میں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ جو طبقاتی نظامِ تعلیم اس کی آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے اس کا اس کی ذات پر کیا اثر ہوتا ہو گا ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم اس کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ جو رہنمائی ایک طالب علم کو ملنی چاہیے اس کے مستقبل کے حوالے سے وہ نہ ملنے کے باوجود بھی وہ میٹرک کر لیتا ہے۔ پھر وہ اپنے تئیں جو محنت کرتا ہے اس کے بل بوتے پرسرکاری کالج میں داخلہ لے لیتا ہے۔ مالی حالات کی تنگی کی وجہ سے وہ اپنے کالج کے اساتذہ، جو کہ صرف حاضری لگانے کالج آتے ہیں، ان کے ٹیو شن سنٹر نہیں جا سکتا۔ کالج جیسے ادارے میں رہ کربھی اس کی شخصیت میں صرف بیرونی تبدیلیوں، داڑھی مونچھ کے علاوہ کچھ اضافہ نہیں ہوتا سوائے احساسِ ندامت و محرومی کے۔ یہی احساس شاید اس کو محنت کرنے پر مجبور رکھتا ہے۔ بارہا ایسے مواقع آتے ہیں جب اس کا جذبہ اور لگن کرچی کرچی ہوتی ہے اور تعلیم چھوڑنے کا یقین ہوجاتا ہے، لیکن ایک امید اور احساس کہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری ہی اس کی تمام تکلیفوں کا مداوا ہو گی اس کی مالی، ذہنی، معاشرتی مجبوریوں کو بچھاڑ دیتے ہیں اور وہ اتنے نمبر حاصل کر لیتا ہے کہ کسی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر لے۔ 6 سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک نوجوان پی ایچ ڈی تک پہنچتا ہے۔ اس میں اس کے گھر والوں نے کس طرح اس کی فیس اور ہاسٹل کے اخراجات برداشت کیے یہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔ یہاں اس کی زندگی کوئی عیش پرستی کی نہیں بلکہ وہی جو اس کے ماضی کی زندگی ہے وہی حال کی اور مستقبل کے سالوں کی ہے۔ پی ایچ ڈی میں اس کے سپروائزر کی طرف سے بارہا رخنہ ڈالنے کے باوجود، کبھی اس کا ریسرچ پیپر لیٹ بھیجنا اور کبھی غلط بھیجنا تا کہ وہ آگے نہ آ سکے۔
خیر ان تمام مرحلوں سے وہ گزر گیا۔ اور پھر انٹرن شپ کے لیے اس کا نام کسی یورپی ملک کی لسٹ میں آ گیا۔ یہاں ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ 22 سال کی اس تعلیم میں اس نوجوان نے ہر مضمون کا تقریبا “پریکٹکل” پڑھا، سکول کالج اور یونیورسٹی میں بھی۔ یونیورسٹی چونکہ ایک بڑا ادارہ تھا تو اس کو یہاں پر ایک سائنسی اپروچ پیدا ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا، لیکن جب وہ 6 ماہ کی انٹرنشپ کر کے آیا تو اس کی زندگی میں ایک تعلیمی انقلاب تھا ۔ وہ ایک پر اعتماد شخص تھا، سائینسی اپروچ پیدا ہو چکی تھی ۔
جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا تو اس نے بتایا کہ وہاں کے اساتذہ نے سائنسی انسٹرومنٹ چلانے کی کھلی اجازت دی اور میں نے صرف 6 ماہ میں اتنا کچھ حاصل کر لیا جو کہ 22 سال میں پڑھ پڑھ کر نہ حاصل کر سکا۔ یورپ کی بات بتانے کا ہرگز مقصد مرعوب کرنا نہیں، بلکہ یہاں سے ہم ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ طالب علموں میں اعتماد صرف اساتذہ پیدا کر سکتے ہیں، اور دوسرا ان کو تجربات کرنے کے لیے کھلی چٹھی دی جائے۔ یونویرسٹیز کڑوروں روپے اس کی مد میں لے رہی ہیں، اساتذہ کو ہم اربوں روپے تنخواہیں دے رہے ہیں لیکن ہم طالب علموں کو صرف اس لئے انسڑومنٹز استعمال کرنے نہیں دیتے کہ خراب ہو جائیں گے۔
اس تمام کہانی کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر دیکھیں تو ہمیں اپنے نظام کی ایک بڑی واضح خامی نظر آئے گی۔ کیا ہم نے صرف اور صرف فوٹو کاپیر پیدا کرنے ہیں یا ہم نے اپنا وہی کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے کہ جب سائینس و ریسرچ کے امام مسلمان تھے؟
SOURCE AS IT IS- See more at: http://www.pakistankakhudahafiz.com/urdu-blog/%DB%81%D9%85-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%D8%AF%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DB%81%DB%8C%D8%AF%D8%A7-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1-%D8%B1%DB%81%DB%92%D8%9F/#sthash.XV5SrJ64.6E5Vco4v.dpuf
No comments:
Post a Comment